’’تینوں رب دیاں رکھاں‘‘

مجید امجد


تاروں بھرے دریاؤں جیسی لمبی تانوں والا یہ نغمہ
دور پہاڑوں میں چکراتی ہواؤں جیسی ۔۔۔ پیچاں سی یہ لے
اب بھی جس کی گونج میں ایک مقدس دکھ کا بلاوا ہے
میں جب بھی یہ گانا سنتا ہوں
مجھ کو یاد آ جاتے ہیں وہ لوگ
جن کے لیے اس دن، آگ کی آندھی میں، یہ بول ہماری یادیں لے کر آئے تھے
مجھ کو یاد آ جاتے ہیں وہ لوگ، جنہوں نے اس دن، اتنے دھماکوں میں
ان شبدوں کو سنا
اور ہمارے بارے میں سوچا
جو کچھ سوچا ۔۔۔ کر گزرے
ان کی انھی سوچوں کی دین ہیں یہ سب دن، ہم جن میں جیتے ہیں
جن میں جییں گے آنے والے جینے والے بھی
انہی دنوں کا سرگم میرے دل کی سپتک پر چھڑ جاتا ہے
جب بھی میں یہ گانا سنتا ہوں ۔۔۔
 
فہرست