پھر جب دوستیوں ۔۔۔

مجید امجد


۔۔۔ پھر جب دوستیوں کے سمندر میں دم سادھ کے اترے
اور اک لمبے ، گہرے ، بے سدھ غوطے کے بعد ابھرے
اپنے دل کا خزف بھی اپنے پاس نہ تھا
باہر دیکھا ۔۔۔ باہر کوئی اور ہی دیس تھا
باہر ۔۔۔ کیسا بازو دار، لہکتا جنگل تھا
جنگل دوستیوں کا۔۔۔
مشفق اجنبیوں کی طرح ہماری جانب دیکھنے والے چہرے دوستیوں کے
جی نے چاہا، اب تو باقی عمر اسی جنگل میں پھول چنیں گے
جانے کتنے دن یوں جاگ سکیں گے ، اس سے پہلے کہ اپنا دل کا سوکھا
پتا ٹوٹ گرے
 
فہرست