فرد

مجید امجد


اتنے بڑے نظام میں صرف اک میری ہی نیکی سے کیا ہوتا ہے
میں تو اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا ہوں
میز پر اپنی ساری دنیا
کاغذ اور قلم اور ٹوٹی پھوٹی نظمیں
ساری چیزیں بڑے قرینے سے رکھ دی ہیں
دل میں بھری ہوئی ہیں اتنی اچھی اچھی باتیں
ان باتوں کا دھیان آتا ہے تو یہ سانس بڑی ہی بیش بہا لگتی ہے
مجھ کو بھی تو کیسی کیسی باتوں سے راحت ملتی ہے
مجھ کو اس راحت میں صادق پا کر
سارے جھوٹ مری تصدیق کو آ جاتے ہیں
ایک اگر میں سچا ہوتا
میری اس دنیا میں جتنے قرینے سجے ہوئے ہیں
ان کی جگہ بے ترتیبی سے پڑے ہوئے کچھ ٹکڑے ہوتے
میرے جسم کے ٹکڑے ، کالے جھوٹ کے اس چلتے آرے کے نیچے !
اتنے بڑے نظام سے میری اک نیکی ٹکرا سکتی تھی
اگر اک میں ہی سچا ہوتا
 
فہرست