کبھی کبھی وہ لوگ۔۔۔

مجید امجد


کبھی کبھی وہ لوگ بھی جن کا ناؤں لکھا ہے
کتنے موضعوں کے پٹواریوں کی کھیوٹ میں
میرے دل کے اندر بیٹھ کے میری باتوں کو سنتے ہیں
پیار سے مجھ کو دیکھتے ہیں یوں جیسے اس گودام میں کاغذ چاٹنے والا اک کیڑا ہوں
مجھے خبر ہے ، دشمن اکثرغرانے سے پہلے ممیاتا ہے
لیکن میرا جی نہیں ڈرتا
مجھ پہ جھپٹ کر مجھ سے آخر وہ چھینیں گے بھی کیا
اپنے پاس کوئی رجواڑا لالچ کا نہیں ہے
اک دو حرف ہیں جن کی گرمی میرے لہو میں لہراتی ہے
ان لوگوں کی ریڑھ کی نلکی میں ہے گودا بھی سونے کا
کوئی کیسا ریلا آئے
ان کا پشتیبان وہ پشتہ بہہ نہیں سکتا، جس کے ذرے آبِ زر سے جڑے ہیں
اے وہ، اپنے دوام کو جس نے حرف کے پیرائے میں دیکھا
تیرے سپرد ہیں میرے ٹوٹے پھوٹے مٹی کے یہ شبد کہ جن میں میری مٹی کی روزی ہے
 
فہرست