موانست

مجید امجد


رات اچانک پھاٹک کا اک پہیہ رینگا
پگڈنڈی پر اک آہٹ نے ٹھوکر کھائی
کالے کالے پروں کو اوڑھ کے سونے والی وحشت
پاس کے پیڑ پہ کندے جھٹک کے چونکی، چیخی
جیسے کوئی اس کی طرف جھپٹا ہو
ڈرتے ڈرتے اس نے نیچے اندھیارے میں جھانکا:
’’اوہو یہ تو ایک وہی سایہ تھا
وہ جو روشنیوں کے پہلے پھیرے سے بھی پہلے
روز ادھر سے گزرتا ہے ، اور پہلی کرن کی پینگ کے پڑنے سے بھی پہلے
چلتا چلتا اس باڑی میں کھو جاتا ہے
آج تو جانے کس لرزاں دھبے سے ٹکرایا، وہ پگلا
کویل نے یہ سوچا، پھر بے کھٹکے
پتوں کی اس سیج پہ تھوڑی دیر کو اونگھ گئی وہ
بوئے سحر کے مست بلاوے پر بے ساختہ کوک اٹھنے سے پہلے !
 
فہرست