بے ربط

مجید امجد


اسی کرے کے جوف سے تم نے کشید کیا
انگاروں سے بھرا ہوا سیال غرور
لیکن کس کی تھی یہ مٹی؟ ہم سب کی
اس مٹی کی وریدوں سے یہ کھچا ہوا سیال غرور
سب میں بٹ جاتا
تو یہ دیس دلوں کے سجدوں سے بس بس جاتا
تم نے بجھتے بھڑکتے ان انگاروں کو
اپنی روحوں میں بویا
اور نفرت کاٹی!
ان انگاروں پہ تم نے اپنے چہرے ڈھالے ٹکسالوں میں
مقصد لوہے اور فولاد کا یہ جنگل تو نہیں تھا، ہونے کو تو، جس کی
اک اک دھڑکن میں تہذیبیں ہیں
کیسی تہذیبیں؟
جب اک لرزش گہری ہو کر اترے گی سنگین چٹانوں میں
اور دھوئیں میں تیریں گی بے جان مقرض قاشیں دنیا کی
تب بھی صرف اک شے باقی رہ جائے گی
تم محسوس کرو تو آج بھی اس کا بوجھ تمہارے دل پر ہے
 
فہرست