ورنہ تیرا وجود۔۔۔

مجید امجد


ورنہ تیرا وجود تو سچ کے سمندر میں ہے مٹی کا وہ پشتہ
جس کے باطن کی جھوٹی خودبستگیاں ہی اس کو سنبھالے ہوئے ہیں
پھر وہ کون ہے جو خود اپنے فوق سے تجھ کو یہ توفیق عطا کرتا ہے
تیرا ہونا ڈوبنے والوں کی آنکھوں میں ڈھارس بھر دیتا ہے
ورنہ تو تو خود اس ریلے میں ہے اک پشتہ، بہہ جانے والا
پھر وہ کون ہے جو یوں تیری سمت اشارہ کر کے
طوفانوں میں گھری ہوئی روحوں کی بے پتوار نگاہوں سے کہتا ہے :
اس تنکے کا بازو تھام لو، شاید تم بچ جاؤٔ، ڈوبنے سے بچ جاؤٔ
بندے ، جانے کتنے لوگ ہیں جن کو تیری آس پہ جینا آساں ہے
اور تو خود وہ پشتہ جس کی جڑوں کو بھنور کی درانتی پیہم کاٹ رہی ہے
تو کیا کر سکتا ہے بندے
تو خود اپنے باطن کی جھوٹی خودبستگیوں کے سہارے پر باقی ہے
باقی تو ہے اک یہ سچ کا سمندر جس کی لہریں ہیں تقدیریں
اور ان تقدیروں کے اچھے اچھے دکھاوے
جانے کتنی آنکھوں میں بس جاتے ہیں، تیری نسبت سے !
کتنی آنکھوں میں ہے اک یہ اداس توقع
کتنی آنکھیں جن میں ایک ہی دیکھنے والا تیری جانب دیکھ رہا ہے کب تو اس کی جانب دیکھے
 
فہرست