اپنی خوب سی اک خوبی۔۔۔

مجید امجد


اپنی خوب سی ایک خوبی میں اس کے لیے اک مستی تھی
اور اپنی اس خوبی کے لچھن دیکھے اس نے ، سب دنیا سے چھپ کر
اب وہ خوبی بھولا ہوا اک خوابِ خوباں ہے
لوگوں کے ذہنوں میں اس خوبی کی بابت اب اک میٹھی میٹھی نفرت ہے
پھر بھی کون اب ایسی باتوں کے بارے میں بات کرے
سب کی زبانیں چپ ہیں، سب کے دل اس علم پہ نادم ہیں
ساری معرفتیں اب بے بس ہیں
وہ مچھلی بس اک بار اس گندے پانی میں نہائی تھی
اور اب زریں طاق پہ اک شیشے کی صراحی میں لہراتی ہے
اب رنگیں صدفوں میں دھنسی ہوئی وہ سرخ مساموں والے گوشت کی گتھلی
بڑے بڑے لوگوں کی باتوں کے مفہوموں میں
تقدیروں کی کھسرپھسر سے بھرے ڈرائنگ روموں میں
تیرتی ہے ، اتراتی ہے
مرغولوں کی باچھوں میں مسکاتی ہے
کیسی خوب سی وہ خوبی اس کو راس آئی ہے
تو کس دنیا سے ٹکرانے آیا ہے
تو کس جگ کی کایا بدلنے آیا ہے
کوڑھی اوگن ہار دلا!
 
فہرست