دیوں کے جلنے سے ۔۔۔

مجید امجد


دیوں کے جلنے سے پہلے
شام کی دھندلی ٹھنڈک میں
گھنے درختوں کے پیچھے
کل جب تیرے نام کی زرد سیاہی طلوع ہوئی
اور پھر اس کے بعد
رفتہ رفتہ جب ہر جانب سے
تیرے ذکر کی اک رمزیلی تاریکی ابھری
تاریکی جو تیرے نور کا اک رخ ہے
تو اس دم اک جابر دانائی
روحوں کی ظلمات سے یوں گزری
جیسے اچانک رستہ روک کے کوئی کسی سے کہے :
’’ادھر، ہماری جانب بھی تو دیکھ!
ان مردہ قلبوں کے اندر بجھتے ہوئے بلبوں کی نگری میں پھرنے والے
ہم تو اندھیروں میں بھی تیرے ساتھ ہیں
ہم جو اندھیروں کے اس بھیس میں اپنی روشنیوں میں اجاگر ہوتے ہیں
 
فہرست