اپنے لیکھ یہی تھے ۔۔۔

مجید امجد


اپنے لیکھ یہی تھے ، منوا
ورنہ میرا سچ تو سب کا علم ہے اور سب پر ظاہر ہے
میرا سچ تو ہے اس پنجر میں جینے والی اک بے بس آگاہی، جس کو سب
نے پرکھا ہے
میری سچائی کو سمجھنے والے ، میرے سچ کے حق میں سچ ہوتے
تو یوں ان کے دلوں میں اک اک قبر نہ ہوتی میرے آنے والے دنوں کی
جیسا کچھ بھی ان کا گمان ان آنے والے دنوں کے بارے میں ہے
پھر میرا دل کیوں نہ دکھے جب میں یہ دیکھوں
میری سچائی کو سمجھنے والے
میری بابت اپنے علم کو جھٹلانے کی کوشش میں، ہر گری ہوئی رفعت کو اپناتے ہیں
پہلے میرے ہونے کو اپنے دل میں دفنا دیتے ہیں
اور پھرمیرے سامنے آ کرمیرے سچ پہ ترس کھاتے ہیں
اور یوں مجھ کو جتاتے ہیں کہ انہیں سب علم ہے ، میرا سچ دم توڑ چکا ہے
میری سچائی کو سمجھنے والے بھی جب یوں کہتے ہوں
کون اس وار کو سہہ سکتا ہے
میرے دل میں میرے سچ کے قدم اکھڑنے لگے ہیں
اب کوئی تو اک اور جھوٹی سچی ڈھارس، منوا
آخر جینا تو ہے
اور جینے کے جتنوں میں زخمی چیونٹی کی بے بس آگاہی بھی عقلِ کل ہے !
 
فہرست