کوہستانی جانوروں۔۔۔

مجید امجد


کوہستانی جانوروں برفانوں کی سمور
اس سرما میں تو۔۔۔
اس کم سن فسطائیت کے گورے جسم پہ اب بھی ویسی ہی ہے
جیسی تھی منقوش عباؤں والے گزرے دنوں میں
تب بھی اس مٹی کے دل میں اپنے ہونے کا ڈر ویسا ہی تھا، جیسا اب ہے
ظلم کی اس بازی میں میرا خوف، اس لمبے عرصے کی شطرنجی پر
جانے کن تقدیروں کا پانسا ہے
جانے اس اک ڈر کی بھی کتنی کڑیاں ہیں، جو سب کی سب میرے لیے ہیں
اور جن کی نسبت سے میری سچی باتیں بھی بے مصرف ہو جاتی ہیں
ورنہ میں تو سچے دل سے چاہوں، کاش اس کھٹ کھٹ چلتی، فربہ فربہ
گوشت کی گتھلی کے ساتھ اک ایسی کم وزنی بھی پروان چڑھے جو
اس مٹی کے ذروں کی طینت میں بٹی ہوئی ہے
لیکن زرد سمور میں لپٹا ہوا یہ مٹاپا
اس نے تو اب کس بھی لیے اپنے دل پر قبضے چاندی کے
اس نے تو اب چھت بھی لیں سب اپنی سوچیں
اب تو اس کے ایک قدم کی پہنچ ہیں مجھ جیسوں کی صدہا عمریں
شاید میری مٹی اسی طرح سے اور ہزار برس ان کالی سرد ہواؤں میں تھر تھر
کاپنے گی
روندے جانے کا ڈر اس کو روندے گا۔۔۔
 
فہرست