دنوں کے اس آشوب۔۔۔

مجید امجد


دنوں کے اس آشوب کے ساتھ اک تیرے ذکر کا امن بھی جس کو مل جائے
اس کی خاطر ساری مٹھاسیں تیرے نام میں ہیں
تو ہی جس کی خاطر چاہے اپنے نام میں اپنی کشش رکھ دے
تیرے امر، تری منشائیں جس کے بھی حصے میں آ جائیں
نہیں تو باقی کیا ہے ، مٹی میں مل جانے والی عمریں، مجھ جیسی
میں، جس کے دل کی موت میں اک یہ ڈھارس جیتی ہے
شاید یوں ہو، سب کچھ تیرے کرم کی رمزیں ہوں
میرا ایسے ایسے گمانوں میں گم رہنا بھی شاید تیرے کرم کی رمزیں ہوں
ایسے ایسے گمان
شاید تو
خود ہی اپنے آپ کو میرے دل سے بھلوا دیتا ہے
اور پھر خود ہی میری بھول پہ مجھ سے خفا ہو جاتا ہے
یوں دھتکارا ہوا میں جا گرتا ہوں، لوہے کی گردن والی ان کاٹھ کی روحوں میں
جن کے آسیبوں سے بچنے کی کوشش پھر مجھ کو تیرے امروں میں لے آتی ہے
اور میری سانسوں میں پھر سے وہ تسبیحیں گرداں ہو جاتی ہیں، جن میں تیرے نام کے دانے ہیں
اے وہ جس کے نام کے میٹھے ورد میں ازلوں سے وارد ہیں
سارے زمانے ، سارے ابد
 
فہرست