فصلِ گل

مجید امجد


تم نے میٹھے مٹروں کی ڈالی سے ڈرتے ڈرتے
تتلی جیسی ایک کلی کو توڑ کے سونگھا ۔۔۔ سوچا
اور پھر آنکھیں میچ کے اپنے آپ میں، خود ہی خود، کملا گئے تم
اپنے پاگل پن میں اپنے آپ سے روٹھی ہوئی یہ خوشیاں تو سب مندے
کی باتیں ہیں
آخر ہم بھی تو ہیں
کتنا مال ہے اس دنیا کا جس کا بوجھ ہماری پلکوں پر ہے
اور یہ پلکیں ہیں جو پھر بھی تنی ہوئی ہیں
تم اک بار ہماری آنکھوں سے بھی تو دیکھو
اس پرگنے کی اک اک کیاری میں ہر پنکھڑی سونے کی ٹکلی ہے
اب کے ہم نے پہلے تو یہ پگھلی ہوئی سب اشرفیاں اپنی آڑھت میں سمیٹیں
اور پھر ان کی اصلی اوسوں کے ساتھ ان کے ٹرک بھر بھر کے بھیجے
میلے میں، جو اب کے پھولوں کی رت میں آیا ہے
سچ پوچھو تو بڑا لگا اب کے اپنا سیزن پھولوں کا
جانے تم کیوں سب چیزوں کو اپنی روح کے تہہ خانوں میں بھر لیتے ہو
ذرا اس اپنے دل کی کلی کو توڑ کے اپنی نوٹوں والی جیب میں رکھ لو
اور پھر مزے مزے سے پھرو اس پھلواڑی میں
ورنہ ان زرخیز بہاروں میں کملا جاؤ گے
 
فہرست