بندے تو یہ کب مانے گا۔۔۔

مجید امجد


بندے تو یہ کب مانے گا، پھر بھی تیرے چہرے کی بھسماہٹ میں جو کچھ
میں نے دیکھا ہے ، تجھ سے کہہ دوں
یہ تیراچہرہ! بس بھربھرا سا اور اس پر گزرے دنوں کے چکٹ سے
جیسے راکھ، اور اس کے مسام، اور کالا زرد لہو، اور سب کچھ
میلا میلا سا دکھ
تو جس کو پہلے سے جانتا ہے ، وہ رمز اک تجھ سے کہہ دوں
میرا اندازہ ہے ، عمر کی اس منزل پہ اگر تو اپنی ان بے چارگیوں پر
جبرکرے تو
یوں تیری آنکھوں میں لپک لپک کے نہ آئے
وہ شعلہ جو تیری روح میں بجھنے کو ہے
تو سمجھے گا، یہ سب شاید تیرے دل کی گلی سڑی سازش ہے
میں یہ تو جانوں، اس سازش کا سب ساز و سامان باہر سے آتا ہے
بندے ، یہ تو دنیا ہے جو لوگوں سے کہتی ہے : ’’میری طرف آنکھیں
چمکا چمکا کر دیکھو‘‘
مرنے والا جاتے جاتے اس دھوکے میں آ جاتا ہے
اس دھوکے میں آنے والے کو اک یہ راحت ہے ، اپنے آپ کو دھوکا
دے سکتا ہے
اپنی جانب آنے والی موت سے آنکھیں پھیر کے پل بھر اپنی بھول میں جی سکتا ہے
اور وہ ۔۔۔ تیری طرح ۔۔۔ آنکھیں چمکا چمکا کرسدا چمکنے والے چہروں کو
یوں حسرت سے تکتا ہے
بندے ، اپنی آنکھوں میں اک یہ گدرائی ہوئی للچاہٹ لے کر مت پھر
اس دنیا میں
تیرے دل کے گڑھے میں تیری لحد کچھ اور بھی گہری ہو جائے گی
 
فہرست