آج تو جاتے جاتے ۔۔۔

مجید امجد


آج تو جاتے جاتے اس نے مجھے اک ہامی بھرنے والے پیار سے دیکھا
بڑے اقرار سے دیکھا
اس اک آن میں میرے سان گمان میں بھی یہ با ت نہ تھی: یہ سب کچھ تھا
امکان میں
لیکن اس نے تو میری سانسوں کا ادھوراپن پہچان کے ، سب کچھ جان کے بھی
یوں مجھے دیے للچاوے اپنی اک مسکان کے جس میں
ہارے ہوئے خود اس کے من کا سنبھالا بھی تھا
اور مجھ جیسے ترسے ہوئے پہ ترس کھانے کی کسک بھی
جاتے جاتے اس کے دل میں جانے کیا بات آئی ہو گی
۔۔۔ اور اک میں تھا
۔۔۔ اور اس دن اک میں تھا جس کے لیے ان کبھی نہ ملنے والی
سب اچھی اچھی خوشیوں میں کبھی نہ ملنے والے سب اچھے اچھے دکھ تھے
 
فہرست