کون ایسا ہو گا۔۔۔

مجید امجد


کون ایسا ہو گا جو سب کے دلوں کی ٹھنڈک کا رسیا ہو
ایسے شخص کے من میں آئی ہوئی اک بات تو وہ جھونکا ہے
جو اک ساتھ زمانے بھر میں پھول کھلا دیتا ہے
اور یہ بات کہیں باہر سے تو نہیں آتی
یہ تو دل پر ایک گرہ ہے ، جس کا کساؤ کبھی بھی کم نہیں ہوتا
جو بھی اسے محسوس کرے ، یہ چوٹ سدا اس کے دل پر ہے
جب بھی کوئی اسے اپنی سانسوں میں ڈھونڈے
اس کی آنکھوں میں بھر جائیں وہ سیال شبیہیں
جن کے دکھ اور جن کے جتن ان بستیوں کے گہنے ہیں
جن کی خوشیوں کے لیے جینا ان بھیدوں میں جینا ہے جو
ازلوں سے ان ذروں کی جنبش ہیں
کون ایسا ہو گا جو اپنے دل کی کسک تک پہنچے
اور پھر ایک قدم خود پیچھے ہٹ کر
اپنی پہنچ کو اوروں کے لیے برتے ، سب کے دلوں کی ٹھنڈک کے لیے برتے
کون ایسا ہے اس دنیا میں؟
کتنے خطرے دلوں کو دلوں سے ہیں۔۔۔ سوچوں تو میرا دل دکھتا ہے !
گنگ زبانوں، بولتی آنکھوں والے چہرے قدم قدم پر مجھ سے جب یہ پوچھتے ہیں:
’’کون ایسا ہے ؟ ہم کس سے پوچھیں؟‘‘
تو میرا دل دکھتا ہے ۔۔۔ اور میرے سینے میں بھیدوں کا سب دھن
خاکستر ہو جاتا ہے
 
فہرست