اے وہ جس کے لبوں۔۔۔

مجید امجد


اے وہ جس کے لبوں کی دعائیں میری زباں تک بھی پہنچی ہیں
اک پستک کے حوالے سے جو
دین تھی ایسے ہاتھوں کی، میں جن کو تھام کے اک دن خواب میں
علم کے سینہ یاب سمندر سے گزرا تھا
آج اس زہریلے پانی کے بھنور میں اپنے پاس یہی
اکھڑے اکھڑے بوسیدہ سے ورق ہیں
اور یہ مٹے مٹے سے لفظ کہ جن پر تیرے ہونٹوں کی مہریں ہیں
تیرے ہونٹوں کے دہرائے ہوئے یہ لفظ مرے ہونٹوں پر جب آتے ہیں
تو اس بھنور میں میرا دل بس سوچتا ہے اک تیری بابت
تیری بابت، تیرے زمانے ، تیرے دنوں کی بابت
تو اور بٹے ہوئے رسوں جیسے وہ بازو
ٹکڑے ٹکڑے ، اکڑے اکڑے سے وہ تیرے ہات کڑکتی پتواروں پر
— اور وہ تیرے تھکے تھکے سے چہرے پر ان تھک تسکینیں
جیسے دریا سب تیرے ہیں
جیسے لہروں سے لڑنے والے بازو سب تیرے ہیں
 
فہرست