اپنے بس میں۔۔۔

مجید امجد


اپنے بس میں تو بس اتنا کچھ تھا۔۔۔ اور وہ بھی، سب تیری خاطر
اس دل نے اپنائی، عمر بسر کرنے کی اک یہ نہج بھی، تیری خاطر
اپنی انا کی بھینٹ
تری خاطر تھی
نطق پہ مہریں تھیں سب تیری خاطر
تیرہ ضمیروں سے گزرا ہوں، گلیوں کی دیوار سے لگ کر، تیری خاطر
نخوت کے بازار میں میرے جسم پہ ٹھنڈی ہوا کی ردا بھی، تیری خاطر
شام کو جب ان دو شہروں کو ملانے والی لمبی، سیدھی، دہری سڑک پر
اتنے دیوں کی دوگانہ صفیں اک ساتھ جلی ہیں
ان کی نیلی نیلی پیلی پیلی لووں کو اپنے جی میں اتار کے
آنکھیں میچ کے تجھ کو یاد کیا ہے ، تیری خاطر
اے وہ، میرا سر جس کے نادیدہ پنجے میں ہے
جس کی انگلیاں میری کنپٹیوں میں گڑی ہوئی ہیں، جانے میری ہی کس
کیفیت میں، مجھے پٹخ دینے کو
اب میں کیسے پلٹ کر تیری جانب دیکھوں، اب میں کیسے تجھے بتاؤں
اب بھی گرم ہے راکھ… مرے قدموں کے نیچے ۔۔۔ میرے
دل کے بجھے ہوئے سورج کی!
 
فہرست