نئے لوگو!

مجید امجد


کچھ ایسی ہی آگیں میرے آگے بھی تھیں
میرے گرد بھی آپس میں جکڑی ہوئی جلتی لپٹوں کے کچھ ایسے ہی جنگلے تھے
جن سے باہر دور ادھر وہ پھول نظر آتے تھے جن پر میرے چہرے کی زردی تھی
میں بھی کہتا تھا ۔۔۔ اور میں اب بھی کہتا ہوں۔۔۔
اک دن شعلوں کی یہ باڑ بجھے گی
اک دن اس پھلواڑی تک ہم بھی پہنچیں گے جس کی بہاریں ہماری روحوں
کے اندر ڈھلتی ہیں
اور میں تو اب بھی آپس میں الجھی ہوئی لپٹوں کے اس جنگلے میں ہوں
جس میں تم ہو
فرق اتنا ہے ، تم نے ابھی یہ آگیں ہی دیکھی ہیں
تم نے ابھی جلتی جالیوں سے باہر نہیں جھانکا
ابھی تو ان شعلوں کی نوکیں تمہارے سینے میں پیوست ہوئی ہیں
اور تمہارے ذہن میں تازہ لہو نے غصہ بھری اک چٹکی لی ہے
لیکن میں کہتا ہوں، اک یہ ترنگ ہی تو سب کچھ ہے
جو باقی رہتی ہے ۔۔۔ اور جو تمہارے پاس ہے !
ورنہ تو میں اور تم اور سب آدمی باری باری انھی چتاؤں میں جل جل جائیں گے
جن کی لپٹیں ہمارے گرد اک جنگلا ہیں ۔۔۔
 
فہرست