دروازے کے پھول

مجید امجد


صبح کی دھوپ ان پھولوں کا دفتر تھی، جس میں
روز ان کی اک مسکراہٹ کی حاضری لگتی
شام کے سائے ان کی نیندوں کا آنگن تھے
صبح کو ہم اپنے اپنے کاموں پر جاتے تو اس سبز سڑک کے موڑ پہ
تازہ دم پھولوں کے رنگ برنگے تختے ہم سے کہتے :
’’کرنوں کا یہ دھن سب کا ہے ، سب کا، اس میں
جیو، جیو، سب مل کر! سنگت سے ہے رنگت‘‘
پھر جب دن کی روشنیاں تھکتیں
تو اس موڑ پہ نیندیں اوڑھ کے سہمے ہوئے وہ پھول یہ ہم سے کہتے :
’’سب کا بیری ہے یہ اندھیرا
جلد اپنے اپنے اینٹوں سے چنے ہوئے سپنوں میں پہنچو
اچھا، کل کو ملیں گے ، کل کو کھیلیں گے !‘‘
لیکن اب وہ تختے اجڑ گئے اور اب اس کوٹھی کے دروازے پر چکنی بجری ہے
اور تھرکتے چمکیلے پہیے ہیں
صاحب، تم نے تو اتنا بھی نہ دیکھا
یہ سب پھول تو خوشیاں تھیں، محنت کش خوشیاں
اور یہ لاکھوں کا حصہ تھیں
تم نے تو اتنا بھی نہ سوچا
اے رے ہم لوگوں کی راحتِ حق کی خاطر لڑنے والے وکیلِ جلیل!
 
فہرست