گداگر

مجید امجد


چلتے چلتے رک کر، جھک کر، ادھر ادھر بے بس بے بس نظروں سے
دیکھنے والے
کبڑی پیٹھ اور پتھرائی ہوئی آنکھوں والے
بوڑھے بھک منگے ، اس اپنی حیرانی کے فریضے میں تو واقعی تو کتنا
حیران نظر آتا ہے
جانے کس کے ارادے کی رمزیں اس تیری بے بسی کی قوت ہیں
پتھریلی روحوں کے صنم کدے میں جانے کون یہ کاسہ بدست کھڑا ہے
تجھ کو دیکھ کے میرا جی اس سے ڈرتا ہے
تیرے ڈرے ہوئے پیکر میں جس کی بے خوفی جیتی ہے
کسی دھیرج سے دھڑکتا ہو گا اس کا قلب کہ تو جس کا قالب ہے
اتنے سکون میں اس کے جتنے قصد ہیں، میں ان سے
ڈرتا ہوں
تیرے وجود کو یہ بے کل پن دے کر کس بے دردی سے وہ
دلوں میں سچی ہمدردی کے درد جگاتا ہے ۔۔۔ اور
ہم کو ترساں دیکھ کے شاید خوش ہوتا ہے !
ابھی ابھی تو، یہیں کہیں تو میری غفلت میں تھا
اب کہتا ہوں، مجھ کو میری آگاہی میں کب یہ بھیک ملے گی
 
فہرست