جب اک بے حق۔۔۔

مجید امجد


جب اک بے حق استحقاق کے بل پر ۔۔۔ راحت کی اک دنیا
جینے والی روحوں کے عفریتوں کے حصے میں آ جاتی ہے
تو اک مشکل ابھرتی ہے : عمروں میں ان خوشیوں کا دور آتا ہے
جن کے تقدس کو زندہ رہنے والی سب اچھی قدر وں نے تسلیم کیا ہے
ایسے میں اب آخر کوئی کتنا بھی سچا ہو، کیوں وہ الجھے ان لوگوں سے
جن کی اک اک سانس محافظ ہے ان کی جھوٹی راحت کے اس قلعے کی
آخر دنیا تو یہی کہتی آئی ہے ، یہ راحت اک وہ حق ہے جو سب دستوروں
کا ثمر ہے
اک وہ حق جس کی خاطر ہر فرد اپنے ہونے کی میٹھی سزا چکھتا ہے
سب کچھ بھول کے اپنی ہستی کی سرمستی میں جیتا ہے
لیکن اپنے حق کے جواز کی بابت کچھ سوچے تو اس کی سوچ میں سیسہ بھر جاتا ہے
اس کی آنکھوں اور چہرے پر اک ٹھنڈی ٹھنڈی پتھریلی چمک بکھر جاتی ہے
کون اس حق سے الجھ سکتا ہے ، کون اسے جھٹلا سکتا ہے
میں نے دیکھی ہے جو کچھ اس حق سے ٹکرانے والی حجت کی سزا ہے
میں کہتا ہوں، پھر بھی دل کو چیرنے والا اپنا یہ دکھ اچھا اس راحت سے
جس میں اس دنیا کو سہارا دینے والی غمگیں نیکیاں سب گہنا جاتی ہیں
 
فہرست