میں کس جگ مگ میں۔۔۔

مجید امجد


میں کس جگ مگ میں تھا اب تک۔۔۔
کہاں تھا اب تک اک یہ خیال کہ جس کی روشنی میں آج اپنی بابت سوچا ہے تو
خود کو اک ظلمت کی منزل میں پایا ہے ۔۔۔
جو بھی اچھائی ہے ، مجھ تک آتے آتے میرا عیب ہے
رستے جہاں تک سب آ کر ملتے ہیں، منزل ظلمت کی ہے میں جس میں ہوں
میں۔۔۔ جو اپنی بے سر و سامانی میں تیرے ذکر کا اہل نہیں ہوں۔۔۔
اندیشوں سے بھرا ہوا یہ سر تو کھڑکھڑاتی ہوئی مٹی کا اک ٹھیکرا ہے جو
تیرے قدموں پر جھک جائے تو بھی
تیری جلالت کا رتبہ نہیں بڑھتا، جو پہلے ہی اوجِ مراتب پر ہے
وہ سب رستے تیرے علم میں ہیں جو
میرے دل کی ظلمت پر آ کرملتے ہیں
اور جو تیری صداقت کے سرچشموں سے پھوٹے تھے
صدہا سمتوں سے آنے والے ان رستوں کے پیچھے
روشنیوں کے ابد ہیں
جن کی اوٹ میں آگے ظلمت کی منزل ہے ، میں جس میں ہوں
باقی سب دنیا اب بھی اس جگ مگ میں ہے ، جس سے ابھی ابھی میں
باہر آیا ہوں
 
فہرست