کہنے کو تو۔۔۔

مجید امجد


کہنے کو تو ہم سب جانے کیا کچھ ہیں ۔۔۔۔
جتنے ذریعے خیر کے ہیں، ہم ان کی جانب کہنے کو تو بڑھتے ہیں
کس کا کلیجا ہے دنیا کی دیکھتی آنکھوں کے آگے
اپنے دل کی بدی کی سمت بڑھے
لیکن تم نے دیکھا، جب بھی چکناچور ضمیروں والے سماجوں میں
کوئی خیر کی منزل سامنے آتی ہے
تم نے دیکھا، کیسی کیسی اپاہج نیکیاں اپنے بجتے جبڑوں کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں
دیکھنے میں تو اتنے سیدھے صراطوں پر چلنے والی۔۔۔
اور جب ان کی آنکھوں کے رستے ان کے دلوں میں گزر کر دیکھو تو
اندر۔۔۔
اندر۔۔۔ گھات لگائے ان کے ضمیروں میں مضمر ہیں وہ سب تیز نگاہوں والے
کالے ارادے ، جو موقع پا کر
خیر کی ہرمنزل پہ جھپٹتے ہیں
روحوں میں جم جانے والے سیسے کی خاطر۔۔۔
 
فہرست