ننھے کی نوبیں آنکھوں۔۔۔

مجید امجد


ننھے کی نوبیں آنکھوں میں تارا
اپنے اندر ساری دنیا کے عکس اب بھی اسی طرح لے کر آتا ہے
جیسے کروڑوں برس پہلے کے بچے
بچے انسانوں کے ، بچے جانوروں کے ، سب لے کر آتے تھے
اپنی آنکھ کے تل میں
اب بھی کوئی چڑیا چشمہ نہیں لگاتی
اب بھی نوبیں آنکھوں والی کھلنڈری ننھی ننھی نئی نویلی نسلیں
دیکھتے دیکھتے دور ان بھرے چوراہوں پر سے
صدہا پہیوں کے جنباں رخنوں کے اندر، اپنے چلتے پیڈلوں، ڈولتے
ہینڈلوں کے ساتھ
کس تیزی سے گزر جاتی ہیں
میرا دل میری عینک کے منفی ہندسوں والے شیشوں کے پیچھے حیران ہے
میں جو بمشکل بہتے ہجوموں کے ساحل پر اپنے اوسانوں کو سنبھالے ہوئے ہوں
کون اس جانب دیکھے گا
جس جانب میں ہوں
جس جانب سب نے جانا ہے
 
فہرست