میرے سفر میں۔۔۔

مجید امجد


میرے سفر میں اک اک دن کا سورج اک اک دیس تھا
ان دیسوں کے اک اک باسی کے دل سے گزرا ہوں
میں نے دیکھا ان کے دلوں کے آنگن سونے کے تھے
ان کی مگن آنکھوں میں ڈورے سونے کے تھے
اک اک صبح کو ان کی سواری کے لیے آتی تھی سورج کی رتھ، سونے کی
لیکن آج یہ جس پر میری نظر رکی ہے ، کون ہے یہ مٹی کا پتلا ان سڑکوں پر
جس کو دیکھ کے میرے جی میں بھر گئے ہیں وہ آنسو
آنسو جن کے سبب سے سونے کے وہ سب زنگار جو میرے عقیدوں پر
تھے ، اتر گئے ہیں
اور اب یہاں کھڑا ہے ، میرے سامنے ، ننگے پاؤں وہ مٹی کا پتلا کیچڑ میں
کرنوں کے کیچڑ میں
اک وہ جس سے اس کے دیس کے سارے سورج ہم نے چھین لیے ہیں
اور میری نظروں کے سامنے اپنے کرموں کے کیچڑ میں لتھڑی ہوئی نظر آتی ہیں
ساری ملتیں جو اب تک ان دنوں کے دیسوں میں آئی ہیں
میرے سینے کے اندر اک چھوٹا سا کوٹھا گر پڑتا ہے اور
اک چھوٹے سے خیال کی دنیا ان میری آنکھوں میں امڈ آتی ہے
اور میرا دل مجھ سے پوچھتا ہے
جانے ہم اپنی روحوں میں کب اس سورج کو
ابھرا ہوا دیکھیں گے
وہ سورج جو اب تک کبھی نہیں ڈوبا
 
فہرست