اور وہ بھی اک کیسی۔۔۔

مجید امجد


اور وہ بھی اک کیسی محویت تھی جس میں سدا صدہا آنکھوں نے اٹھائے
اپنے نازک پردوں پر بوجھ اس موسیقی کے جو روحوں میں لہرا جاتی ہے
اور پھر اک وہ محویت بھی دین تھی کیسی کیسی آسودہ شاموں کی
ان گلیوں میں کیسے کیسے لوگ تھے ، جو یوں اپنے دلوں کے گمانوں میں جیتے تھے
اک لمحے میں ابد کو دیکھنے کا احساس، عجب اک مستی تھی وہ
جس کے گمانوں میں جیتے تھے
ان کو اس کی خبر نہیں تھی، یہ گہری محویت
موجِ ابد کی رو سے کٹ کر گرا ہوا وہ ساکت لمحہ ہے جس کے ٹھہراؤ میں
رک جاتے ہیں
وہ سب ذکر کہ جن کو جاری ہی رہنا ہے
باہر دیکھو، اس دوار حقیقت کی جوکھم میں جو بھی پڑا اس کی آنکھوں میں تو بھر بھر گیا بوجھ
اس ذکر کا جو مٹی میں مل کے بھی مٹی نہیں ہوتا
سنبھلو۔۔۔ سوچو۔۔۔ تم کس محویت میں محو ہو لوگو
اپنے ذہن سے خود کو جھٹک کر، اپنے باہر دیکھو
 
فہرست