آنکھیں ہیں جو۔۔۔

مجید امجد


آنکھیں ہیں جو مجھ پہ گڑی ہیں
چہرے ہیں جو میری جانب جھکے ہوئے ہیں
آنکھیں، جن کو دیکھ کے میرے دل کے تختے دھڑکنے لگ جاتے ہیں
چہرے ، جن کے آگے میری روح کے بادباں ڈول جاتے ہیں
آنکھیں گردابوں کی
چہرے طوفانوں کے
اور یہ موجیں
یہ دشمن آنکھوں والے عفریتوں اور ان کے چکراتے وجودوں کے پیچاک، ابھرتے ،
بڑھتے ، میری سمت امڈتے
سب کچھ ایک ذرا سی جنبش ان سرشار ہواؤں کی جو
ازل سے ابد تک بہتی ہیں اور جن کی لگامیں
ایسے ہاتھوں میں ہیں جن کی ہتھیلیوں پر یہ سارے سفینے ہیں روحوں کے
بجتے تختے ۔۔۔ ڈولتے بادبان… اور ڈر اس کا جس کا سہارا ہے
 
فہرست