اب تو دن تھے

مجید امجد


اب تو دن تھے
یہی تو دن تھے
دن جو اک شخص کے حق میں جدا جدا تقدیر ہیں
جانے میرے دنوں کا فیصلہ کیا ہو میرے حق میں
لیکن پھر بھی یہی تو وہ دن ہیں جن کی پتھریلی تھاہ میں مل جاتی ہے
غواصوں کو
دولت
دولت بھی ایسے حرفوں کی۔۔۔ جن کے سانچوں میں اسموں کے ابد ڈھلتے ہیں
اب تو دن تھے
پھر تو۔۔۔
پھر تو یہ ذلت تک بھی باقی نہ رہے گی جس میں میری آسائش مجھ کو زندہ رکھتی ہے
اب تو دن تھے ، میرے دل میں بسنے والی بڑی پرانی بے دلی
تو اک بار تو میرے قلم کو اپنے بھید عطا کر دیتی
پھر تو ریت کی چادر ابھرے گی اور ڈھانپ دے گی ان زخموں کو جو
تیری مردہ مسکراہٹ نے مجھے بخشے ہیں
 
فہرست