سب کچھ جھکی جھکی۔۔۔

مجید امجد


سب کچھ جھکی جھکی ان جھونپڑیوں والے میرے دل کے گاؤں میں ہے
جو میری ان پلکوں کی چھاؤں میں ہے
جب یہ پلکیں میرے دل کی جانب جھکتی ہیں
باہر لاکھوں زندگیوں کے قبیلے
بازو جھٹک جھٹک کر کوسنے والی نفرتیں
کالے جنگل، جن کی جڑیں سب میرے سینے میں ہیں
باہرمینہ برسا ہے
باہر چھتناروں کے دھلے دھلے پہناوے ، گیلی گیلی دھرتی اور چمکیلی سڑکیں
اور اندر میرے کمرے میں دیواریں مجھ سے کہتی ہیں:
’’۔۔۔ آج ہمارے پاس بھی بیٹھو۔۔۔
ہم نے تو دیا تمہیں یہ دل، یہ گاؤں، کہ جو اس لمحے تمہاری ان پلکوں کی
چھاؤں میں ہے ‘‘
 
فہرست