ان کے دلوں کے اندر۔۔۔

مجید امجد


ان کے دلوں کے اندر تو نہیں، لیکن ان کے مکانوں کے اندر تو دیکھو
کتنی ویرانی۔۔۔ جس سے ان کے دل بے وقعت ہیں ۔۔۔
کتنی ویرانی۔۔۔ جس سے ان کے چمکیلے آنگنوں کی رونق ہے ۔۔۔
چھوٹے بڑے لوگ ان شہروں کے اپنے چھوٹے بڑے مکانوں میں سب اک جیسے ہیں
دیواروں سے پھسل کر آنگنوں کی ڈھلوان تکونوں تک جو دھوپ اتری ہے
سب زردی ہے چہروں کی ان شہر والوں کے
اپنے آپ سے اکتائی ہوئی سب عاجز خوشیاں ہیں جو چہروں اور آنگنوں پر پھیلی ہیں
باہر ۔۔۔ کھوکھلے قہقہے ، جن میں ٹین کی روحیں بجتی ہیں۔۔۔
اندر ۔۔۔ کچھ ۔۔۔ کاٹھ کی راحتیں، دیمک کے جبڑوں میں۔۔۔
 
فہرست