بندے جب تو۔۔۔

مجید امجد


بندے ، جب تو اپنی سوچ میں کوشاں ہوتا ہے اس زندگی کے لیے
جس کی خاطر تیری روح ڈکارتی ہے تیرے دل کی دھڑکن میں
ٹھنڈے میٹھے پانی
سانس میں روغنی باس۔۔۔ اور
اینٹوں کی عشرت میں نئی قمیصوں کی طناز کریزیں
اور اس اپنی سوچ میں کوشاں رہنے پر جب تیری آنکھیں
نئے نئے چمکیلے دکھوں سے بھر جاتی ہیں
تجھے خبر ہے تب تو کتنا قریب آ جاتا ہے اس دن کے
جس کی روشنیوں پر تیرے دل کے اندھیروں کا سایہ ہے
اور ۔۔۔ اس دن کے آگے کیا ہے ؟ تجھ کو بتاؤں
تو دیکھے تو آگے تجھ کو زمانے کا وہ ان دیکھا دور دکھائی دے گا
میں نے اپنی عمر میں جس کو مرتے ہوئے دیکھا تھا
کیا تو انھی دنوں کی زنجیروں کو پھر سے پہن لینے پر آمادہ ہے ؟
کیسے کیسے خیال مرے دل میں آتے ہیں
لرزا دینے والے دھیان ان دنوں کے جب لاکھوں لوگوں نے اندھیری
رات کا کالا آٹا
اپنے آنسوؤں میں گوندھا تھا
کالے آٹے ۔۔۔ کالے پانی۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔ میرا یہ بدن تو میرا بدن ہے جو اس مٹی ہی کے لیے تھا
لیکن۔۔۔ میرا دل۔۔۔ میرا دل تو تیرے سینے کے لیے ہے
 
فہرست