مصطفیٰ زیدی

مجید امجد


اے وہ جس نے اپنی صدا میں اپنی بقا کو ڈھونڈا
اے وہ جس کی صدا کو بہا لے گئیں کڑکتی کالی آندھیاں خونی ویرانوں کی
مجھ بے دست و پا کا دل دکھتا ہے ، جانے اک وہ کیسی گھڑی تھی
اس دن، ساتوں آسمانوں کی گرتی چھتوں کے نیچے
تو نے جب اپنے جی میں اپنے آخری سانس کی ٹھنڈی چاپ سنی تھی
جانے تو نے ذرا سے اس وقفے میں کیا کیا سوچا ہو گا
اب میں کیسے تجھے بتاؤں
اب بھی ہست کا صحرا اسی طرح خود موج ہے
اب بھی تیرے دل کا منور ذرہ تیری مٹی سے باغی ہے
کون اب تجھ سے پوچھے
تو نے اپنے غموں کے غم میں خیالوں کے جواب ڈھونڈے تھے
کیا وہ سب اس مٹی سے باہر تھے
جس مٹی کو تیرے ذہن نے اپنے وجود سے جھٹک دیا تھا؟
کس کے پاس جواب ہے اس کا؟
کون بتائے ، کس دنیا کے کن ظلموں نے لوٹ لیں۔۔۔
سدا چمکنے والی تیری وہ مشفق آنکھیں اور تیرا انس بھرا وہ چہرا
اور وہ ذہن کہ جس کے طوفانوں میں تو نے عمر بسر کی موت کے ساحل تک
صدیوں تک بھیگی پلکوں سے دنیا چنے گی
موت کے ساحل پر بکھرے ہوئے روشن ذرے تیری صداؤں کے
 
فہرست