چیونٹیوں کے ان قافلوں۔۔۔

مجید امجد


چیونٹیوں کے ان قافلوں کے اندر میں وہ مناد ہوں
جس کی آنکھوں میں جب آتی آندھیوں اور طوفانوں کی اک خبر ابھرتی ہے
تو ان آندھیوں اور طوفانوں کی آواز کو قافلے سن نہیں سکتے
لیکن میرے دل کا خوف، جو میرے علم کی عادت ہے
ان قافلوں کے حق میں اک ڈھال ہے
تقدیروں کی یہ خبریں اور ان کے سب دکھ میرے لیے ہیں
لیکن کس نے میری خبروں کو میری آواز کے پیکر میں دیکھا ہے
کس نے سنی ہے جاننے والی یہ آواز جو سب کے سروں پر ڈھال ہے
سدا جییں ان صحنوں میں یہ دھیرے دھیرے رینگنے والی ننھی ننھی جیتی لکیریں
جن کے ذرا ذرا سے الجھاوے ہی ان کے کڑے مسائل ہیں
ان دکھوں سے بھی بڑھ کر
جو آسمانوں کے علموں نے مجھ کو سونپے ہیں
 
فہرست