8 جنوری972

مجید امجد


ان سالوں میں
سیہ قتالوں میں
چلی ہیں جتنی تلواریں بنگالوں میں
ان کے زخم اتنے گہرے ہیں روحوں کے پاتالوں میں
صدیوں تک روئیں گی قسمتیں۔۔۔ جکڑی ہوئی جنجالوں میں
ظالم آنکھوں والے خداؤں کی ان چالوں میں
دکھوں، وبالوں میں
قحطوں، کالوں میں
کالی تہذیبوں کی رات آئی ہے اجالوں میں
اور اب ان زخموں کے اندمالوں میں، اپنے اپنے خیالوں میں
چلنے لگی ہیں کروڑوں جبڑوں تھوتھنیوں میں زبانیں
جیبھیں جٹی ہوئی بے مصرف قیلوں قالوں میں
کوئی تو میری بے زبانی کے معنی ڈھونڈے ان حالوں کے حوالوں میں۔۔۔
 
فہرست