ان بے داغ ۔۔۔

مجید امجد


ان بے داغ دبیز غلافوں کے عطروں میں یوں تو سب کچھ ہے
۔۔۔جن کو تمھاری آنکھیں چومتی ہیں
ان شفاف چمکتی دہلیزوں میں یوں تو سب کچھ ہے
۔۔۔جن پہ تمھارے سجدے بچھتے ہیں
پرہیبت دیواروں، میناروں اور گنبدوں کے سایوں میں یوں تو سب کچھ ہے
۔۔۔جن میں داخل ہوتے ہی تمھاری سانسیں
ابد کے بوجھ کے نیچے رک رک جاتی ہیں
تقدیسوں کے اسیرو، تم یہ بھی تو سوچتے
اصل میں سب کچھ تو وہ برتاوے تھے جن کو عمروں کے اس ٹکڑے نے اپنایا جو اب
ان قبروں کی مقدس مٹی ہے
تم بھی اس اک پل کو جگمگا سکتے ہو
جس کا تمھاری عمر اک ٹکڑا ہے
ورنہ یوں ہی ان اپنی سچی سوچوں میں ٹھوکریں کھاؤ گے
 
فہرست