تیری نیندیں۔۔۔

مجید امجد


تیری نیندیں جانتی ہیں ری منو ۔۔۔
تیری لمبی بے کھٹکا نیندیں جانتی ہیں کیا۔۔۔
تجھ کو تھپکنے والے ٹھنڈے ہاتھوں کے پیچھے یہ کس کا دل ہے ؟
اور یہ جو نیندیں لانے والی کم سن صبحیں آئی ہیں
کتنے اندھیروں کے ساتھ اب اس اک دل میں ابھری ہیں؟
اک دل، تجھ کو تھپکنے والے ہاتھوں کا بازو
گندمی محنت زاروں، دھانی کاجواڑوں اور بے رزق دروں میں
لاکھوں ہاتھ پنگھوڑے جھلانے والے ، اور ان کے پیچھے اک یہ دل
اک دل، ان ہاتھوں کا بازو۔۔۔
تجھ کو خبر ہے ری منو، تیری نیندوں کو دیکھ کر
آج تو یہ اک دل کن دنیاؤں میں جاگا ہے جو اس کی آخری دھڑکن سے بھی ورے ہیں
کالے سماج۔۔۔ بلکتے بچپن اور اپاہج عمریں
آج بھی اپنی دھڑکنوں میں یہ اک دل تیرے لیے کیا کر سکتا ہے
کل بھی وقت کا پیکر کیا کر سکے گا، یہ دل جس کا ٹوٹا ہوا بازو ہے
کاش ایسے دن بھی آئیں جب یہ دل تیرے جاگنے میں اک شاداں بہناپے کی
مسکانوں میں جاگے
 
فہرست