زندگیوں کے نازک۔۔۔

مجید امجد


زندگیوں کے نازک نازک دکھی دکھی موڑوں پر جو جو لمحے آتے ہیں
اک دن اپنے سارے آنسوؤں سمیت، بھنچے ہونٹوں کے پیچھے ، دلوں کی تاریکی
میں مر جاتے ہیں
ان کو کیوں مرنا تھا؟
یہ جذبے تو اس اک سچائی سے پھوٹتے ہیں جو روحوں کا جوہر ہیں
لیکن یہ دل کیوں ان جذبوں کا مدفن ہے ؟
پاؤں پھر بھی ڈگ مگ ڈولتے ہیں، گلیوں کی رسموں میں۔۔۔
مرنے والے ساتھی کے ماتھے کو چومنے والے تھر تھر کانپتے ہونٹ
یہ سب کچھ بھول کے
پھر بھی ان صحنوں کی ریتوں میں ہنستے بولتے جی جاتے ہیں
مند جانے والی آنکھیں مٹی میں سو گئیں، جینے والے اقراروں کے سامنے
بندے ، تو ان آنکھوں میں ان سب اقراروں کا شاہد ہے
یہ کس سانحے کے پنجر نے تیرے دل کے مدفن میں کروٹ بدلی ہے ؟
تو کیا سمجھا بندے ؟
شاید سارے سچ تو اس سچائی میں ہیں جس کا کسی کے ساتھ اقرار نہیں
 
فہرست