دلوں کی ان فولادی ۔۔۔

مجید امجد


دلوں کی ان فولادی بیٹھکوں میں کس تک ان مفہوموں کے سب معنی پہنچے ہیں
مفہوم ان حرفوں کے جن کی عبارت کھردرے کاغذ کے میلوں لمبے مسطر پر
روزانہ لاکھوں بھوکی آنکھوں کا ناشتا ہے
کس کے فہم نے معنی جذب کیے ان سب حرفوں کے
جن کی کالی روشنائی سے لہو رستا ہے
کس نے ان حرفوں سے رستے لہو کو دیکھا
لہو۔۔۔ لہو ہم سب کا، دھانی دیسوں، گدلی آبناؤں میں
کس نے جانا
ان صبحوں میں، ان میزوں پر
ورق الٹتے ہی ہر روز اک خونیں عہد گزرتا ہے
مارملیڈ لگے توسوں کے درمیان ۔۔۔
ورق الٹ کر، لو وہ زوں زوں کرتے گھوم گئے پھر سب دل اپنے اپنے محور پر
اپنے اپنے اطمینانوں میں
اپنا دل تو دیکھے دنوں سے دکھنے لگا ہے
 
فہرست