باڑیوں میں مینہ۔۔۔

مجید امجد


باڑیوں میں مینہ کا پانی، اور ان کے ساتھ ساتھ آگے تک
کیچڑ کیچڑ ڈھلوانوں کی نم مٹی پہ چمکتی ٹھیکریاں اور تنکے
جن میں کھبے کھبے سے نقش، ان قدموں کے جو
ادھر سے جیسے ابھی ابھی گزرے تھے ، زمانوں کے اوجھل!
اب کوسوں خطوں دور، ان اینٹوں کے گھیرے میں یوں بیٹھ کر سوچنا ان روحوں
کے بارے میں
گونگی، منہمک چیونٹیاں تھیں اپنے اپنے جتنوں میں
اپنی اپنی نارسائی میں
اب اس ٹھنڈی سانس کے قلعے میں یوں بیٹھ کر سوچنا۔۔۔
کتنی بڑی ہزیمت ہے ان آہنی خوشیوں کی جن کی نوکیلی باڑ سے
باہر ہیں ان روحوں کے وہ سب دکھ اور وہ سب
نیکیاں جو زینہ تھیں اس قلعے تک
آج اس ٹھنڈی سانس کے قلعے میں یہ آہنی خوشیاں سب کتنی بے امن ہیں
سارے امن تو ان نازک اندیشوں والی زندگیوں ہی میں تھے
جن کے نقشِ قدم کیچڑ کیچڑ ڈھلوانوں سے جیتی گلیوں تک جاتے تھے
 
فہرست