اس کو علم ہے ۔۔۔

مجید امجد


اس کو علم ہے ، اب وہ ایک سیاہ گڑھے کے دہانے پر ہے
آگے … اک وہ گڑھا ہے اور اس کا وہ اگلا قدم ہے
اب بھی اس کی بے حس، بے دانت، اوچھی، مسترخی باچھیں ہنستی ہیں
اس کا دل نہیں ہنستا اور اس کی باچھیں ہیں جو ہنستی ہیں
یہ اک پرتحقیر تلطف دھار ہے اس تلوار کی جس کی زد اتنی کاری ہے
سب اس وار سے اپنی ذلت کی عظمت پاتے ہیں
اس خوش بخت کو علم ہے ، اس کے دن تھوڑے ہیں
اس کو علم ہے ، اس کا آخری وار اور اس کا اگلا قدم اک ساتھ پڑیں گے
آگے اک وہ گڑھا ہے اور اس کا وہ اگلا قدم ہے
اب ایسے میں جتنے سانس بھی ہیں اس گڑھے سے باہر
جس سے کبھی کوئی باہر نہیں نکلا
اس کی یہ کوشش ہے ، وہ اس وقفے کے اندر بھر لے اپنی باچھوں میں
کچھ گھونٹ اور بھی
خوشیوں کے اس گاڑھے جوشاندے کے
جس میں مظلوموں کا لہو پکتا ہے
 
فہرست