اب بھی آنکھیں۔۔۔

مجید امجد


اب بھی آنکھیں ان کو ڈھونڈتی ہیں جو اب بھی آنکھوں میں بستے ہیں
ہر جانب بستے ہیں وہ ۔۔۔ ہم جن کا بھرم تھے جب وہ تھے
اب بھی ہمارے ساتھ ہیں ان کے دکھ، ہم جن کا مداوا تھے جب وہ تھے
اب تو ان کے رابطے
ہماری زندگیوں کے غیاب میں
جینے والے کشف ہیں
کون بتائے اپنے رازوں میں ہیں کتنی بیکراں۔۔۔ یہ بے فاصلہ دوریاں
جانے کن اقلیموں سے آتے ہیں خیالوں کے ہلکے ہلکے سے جھکولے
جو ۔۔۔ چپکے سے ۔۔۔ دھیرے دھیرے ۔۔۔ روحوں کے کنجوں میں سرسراتے ہیں
تو آنکھوں میں بھر بھر جاتی ہیں مٹی ان آستانوں کی۔۔۔
جن کے امٹ نشانوں کے سامنے
ان کے دعا کے ہاتھ ہمارے لیے اٹھے تھے
ان کی سانسوں میں جینے والے زمانے ہمارے دلوں میں جاگتے ہیں۔۔۔ اور اب بھی
ہماری آنکھوں میں بستے ہیں وہ، ہم جن کے ضمیروں میں تھے جب وہ تھے
 
فہرست