اور ان خارزاروں میں۔۔۔

مجید امجد


اور ان خارزاروں میں چلتے چلتے خیال آتا ہے
سدا ہمارے دلوں میں چٹکنے والی کلیوں کی یہ بہاریں
جن صبحوں اور جن شاموں کا موسم ہیں
وہ دن آئیں گے تو۔۔۔
اور کانٹوں کی ٹوٹتی نوکیں ہمارے قدموں کے نیچے کڑکڑانے لگتی ہیں
اور سانسوں کی لہر میں لوہے کی سیال سی پتری جڑ جاتی ہے
اور زمین کی پیٹھ پر اپنا بوجھ بہت کم رہ جاتا ہے
اب تک ہم نے کیسے کیسے یقینوں کے ان نیلم جڑے پیالوں میں عمروں کا زہر پیا ہے
یوں کتنے دڑبوں میں آس کے چہروں پر اک مٹیالی سی دمک جیتی ہے
آسمانوں کو گونجتی پہنائی میں ہمارے نام کے ذرے بکھر بکھر جاتے ہیں
کبھی نہ مرجھانے والے پھولوں کے ڈھیر ہمارے من میں
اور یہ سب کچھ۔۔۔
اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں جب اپنے دامن میں پیتل کی اک پنکھڑی بھی نہیں ہوتی
 
فہرست