بھولے ہوئے وہ لبھاوے ۔۔۔

مجید امجد


بھولے ہوئے وہ لبھاوے تب تو کتنے سچے کتنے کھرے تھے
تب تو اپنے وقت کی سچائی تھیں گزری ہوئی وہ جھوٹی خوشیاں
جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کے اک دن سیدھی اس میرے دل میں آئی تھیں
اب تو سچ مچ وہ خوشیاں جھوٹی لگتی ہیں، اب کہتا ہوں، کتنا بھولنہار تھا تب میں ۔۔۔
اب تو اور ہی جھوٹی سی اک اپنی سوجھ کی سچائی پر اتراتا ہوں
جانے اس کروٹ کو آگے چل کر میں اک بھول ہی سمجھوں
شاید سب یہ گزرنے والے دن ہوں دکھاوے ان سب آنے والے دنوں کے
دن اب جن کے لوبھ میں جینا ہو گا
دن جو میرے دل تک میرے جھوٹ کی سیڑھیاں ہیں
میری موت کی سچائی تک
 
فہرست