تو تو سب کچھ

مجید امجد


تو تو سب کچھ جانتا ہے ، وہ کیسی کیسی شکستہ کمر توقیریں تھیں جن کی خاطر
تجھ سے طاغی ہو کر ڈوبا رہا ہوں
اس اک گہری ٹھنڈی سانس میں
جس کے چلتے آرے کی یہ دھار اب
میرے دل کو چیرنے لگی ہے
سب کچھ والے ، سب کچھ تو تجھ سے تھا
اپنی روح کے اس خاکی سے دکھاوے کی خاطر، اک میں ہی
جھوٹے خیالوں کی یہ کچی تیلیاں جوڑ کے
اپنے گمانوں کے قلعے میں یوں اب تک دربند تھا
ورنہ ساری صولتیں تو اس نام کو حاصل تھیں جو تیرے ظاہر و مخفی وجود سے باہر
تیرا اسم ہے
سچی عزتوں والے ، ان سب کائناتوں میں جو کچھ عیاں ہے اس سے بھی بڑھ کر
اظہر ہیں تیری عطائیں، جن کے ستر میں ناموس
ان سب ناموں کے جو سورج کے نیچے جلتے ہیں
یا جو مٹی کے اندر جیتے ہیں
مرے نجس، نکمے ، ناری نام کو اپنے کرم کی رمزوں کے زمروں میں رکھنا
 
فہرست