عرشوں تک۔۔۔

مجید امجد


عرشوں تک اونچے آدرش کے فیضانوں میں بھی
اسی طرح سے ہمیشہ ڈرتے رہے ہیں لوگ ان لوگوں سے جو
اپنے لمبے بازوؤں میں سب تدبیریں رکھتے ہیں
اور یہ کون بتائے ، اس اک ڈر کے ناطے کتنے کچے ہیں، کتنے سچے ہیں
تدبیروں والوں کی گردنیں ہل نہیں سکتیں
لیکن ڈرے ہوئے لوگوں کی اک اک التجا کو اپنی پلکوں سے چن لیتی ہیں وہ آنکھیں جو
ان سب موٹی موٹی گردنوں، خودسر کھوپڑیوں سے جھانکتی ہیں، فاتح فاتح، نازاں نازاں
اور یوں طاغی روحوں کو عظمت کی غذا ملتی ہے
اور یوں ناتواں چیونٹیاں قدموں کے نیچے پسنے سے بچ جاتی ہیں
اور میں نے یہ دیکھا ہے روز ان خشت کدوں کے اندر اک اک ہمہماتے چھتے میں
جس میٹھے ، مٹیالے شہد کی بانٹ ہے
اس کو نارسا عاجزیاں ان پھولوں سے حاصل کرنی ہیں جو
فرعونوں کے باغوں میں کھلتے ہیں
زینہ بہ زینہ، اک اک بام پہ بت اور ان کی لکھ لٹ آنکھیں، ہنستی، ارذل خوشیاں بانٹتی
روز و شب کی احتیاجوں میں۔۔۔ یوں ہی فرشوں کے دھندے چلتے ہیں
عرشوں تک اونچے آدرشوں کے سایوں میں
 
فہرست