کل۔۔۔ جب۔۔۔

مجید امجد


آخر تمہیں بھی سوجھی یوں ہم ڈرے ہوؤں سے ڈرنے کی
نا بھئی، اب ہم پھر نہ کہیں گے بات یہ جینے مرنے کی
ابھی سنی جو تم نے کتھا یہ موت کے مشکل لمحے کی
وہ تو جیتے جی، خود جی سے گزرتی سوچ کی کروٹ تھی
کاہے کو تم گھبرا گئے ، یہ تو روپ تھا خود سے لگاوٹ کا
یونہی ذرا کچھ اپنے آپ سے روٹھ کے ہم نے دیکھا تھا
اچھا، مان لیا۔۔۔ ہیں زخم ان بھیدوں کے سب دکھن بھرے
ہونے اور نہ ہونے کے اس الجھیڑے میں کون پڑے
چھوڑیں بھی وہ جھوٹی سچی بات۔۔۔ ذرا اب دنیا کو
اک نظر ہم اپنی شکم سیر آنکھوں سے بھی دیکھیں تو
تمہیں خبر ہے ، تم سچے ہو، دنیا کی یہ انوکھی دھج
صرف اک سورج سے ہے ، وہ بھی تمہارے چہرے کا سورج
تم سچے ہو، جو کچھ بھی ہے جیتے دنوں کا میلا ہے
مٹی جسم ہے ، مٹی نور ہے ، مٹی وقت کا ریلا ہے
ہرے بھرے میدان، ابلتے قریے ، باسمتی کی باس
سانسیں، عمریں، قدریں۔۔۔ سب کچھ سکے ، پہیے ، چربی، ماس
سب تقدیریں، سب ہنگامے ، سب یہ مسائل بھنور بھنور
سب کچھ ایک خنک سا جھونکا، تمہارے رخ کے پسینے پر
اچھا، اب توخوش ہو۔۔۔ اب بھی سنو تو میرا دل یہ کہے
بھائی، کل کیا ہو گا ۔۔۔ کل جب بیگھے خون میں بھیگ گئے
 
فہرست