دل تو دھڑکتے ۔۔۔

مجید امجد


دل تو دھڑکتے آگے بڑھتے قدموں کا اک سلسلہ ہے
دل کا قدم جو گزرتے وقت کی منزل طے کرتا ہے
ساتھ ہی، ایک ہی وقت میں، بیتے وقتوں کی جانب بھی بڑھتا ہے
دل پر وقت کی جو منزل ہے ، طے نہیں ہوتی۔۔۔
بس اک انجانی سی آ گہی ہے جس کی بیدارمسافت پر سب مرحلے
اک ساتھ اپنی گزرانوں کی نیندوں میں
جاگتے ہیں
بیٹھے بیٹھے آج اس کیفیت سے ڈر اٹھا ہوں، جس کو میں پہچانتا ہوں اور جس کی بابت
جانتا ہوں، یہ کیفیت اس وقت ابھرے گی
آنے والے دن جب گزرے دنوں کی منزل سے گزریں گے
گزرے ہوئے زمانوں کی منزل سے گزرنے والے ۔۔۔ آنے والے دنوں کا
خیال آتے ہی
وقتوں کی کچھ سطحیں دل کے دھڑکتے قدموں کے نیچے سے سرک گئی ہیں
دل کو سہارا دینے والا اک ڈر، من کو لبھانے والی ایک اداسی
جن کا کوئی ابد ہے اور نہ عدم ہے
پل بھر میری زیست کا حصہ رہے ہیں
گزرے دنوں کی خوشیاں آنے والے غموں کا جزو نظرآتی ہیں
 
فہرست