اور پھر اک دن۔۔۔

مجید امجد


اور پھر اک دن میں اور تم جب ان اونچی نیچی دیواروں کے جھرمٹ میں اترے
جن میں کبھی ہماری روحوں کو زندہ چن دیا گیا تھا۔۔۔
اس وقت آنگن آنگن میں، ترچھی کرنوں نے
دھوپ کے کنگرے سایوں کی قاشوں میں ٹانک دیے تھے
دیکھا ہوا سا کوئی سماں پرانا اس دن ہم نے دیکھا
یوں لگتا تھا جیسے آسمانوں کی روشنیاں جھک کر اس اک قریے کو دیکھ رہی تھیں
اور ہمیں تب وہ دن یاد آئے جب موت ہماری زندگیوں سے گزر رہی تھی، ایسی ہی
صبحوں کی اوٹ میں
ہم ان زینہ بہ زینہ منڈیروں کے جھرمٹ میں تھے اور اس شہر کے لوگ
اب بھی گلیوں میں
خوانچے لگائے اپنی زندگیوں کو بیچ رہے تھے
اور پھر ہم نے سوچا، کون اچھا ہے ، ہم جو مردہ چہروں سے جینے کی خواہش
پاتے ہیں، یا وہ جو
ہم کو زندہ دیکھ کے ہماری موت کو مان لیتے ہیں
ابھی ابھی تو میرے ساتھ تھے تم، اے گزرے ہوئے زمانوں کے خیالو! پھر کب لوٹو گے ؟
اک دن پھر بھی تمہارے ساتھ اس خاک کے تختے تک جاؤں گا
جس سے ڈھکے ہوئے بے نور گڑھوں میں کچھ نادیدہ آنکھیں
ہم کو دیکھ کے اب بھی ہنس ہنس اٹھتی نظر آتی ہیں
 
فہرست