لیکن سچ تو یہ ہے ۔۔۔

مجید امجد


لیکن سچ تو یہ ہے ، صرف ہمیں جھٹلا سکتے ہیں اپنی جھوٹی سچائی کو
ورنہ اپنا حال تو یہ ہے ، ظاہر کرنے کو تو یوں ظاہر کرنا جیسے ہم جیتے ہیں بس کچھ
ایسے خود مست یقینوں میں جو
صرف ہمیں کو اپنے بارے میں حاصل ہیں۔۔۔
لیکن اندر ہی اندر یہ باور کرنا ’’آنے والی اگلی سانس تو بڑی کٹھن ہو گی، جب تک
ہم اپنے اس بہروپ کو ترک نہیں کر دیتے ‘‘
زندگیوں کے برتاووں میں اپنے جھوٹ سے ہم لوگوں کو دہلاتے ہیں
اور اپنے سچ سے خود سہمے ہوئے رہتے ہیں
ایسا کون ہے جس کی طلب دنیا میں بے بہروپ ہے
اور خودمست آنکھوں کی ساحر ٹکٹکی اور لب بستہ حلقوموں کی مخفی تلخی
کے پیچھے تو جانے کس کس مجبوری کا عمل ہے
کالی ریت کے جلتے صحراؤں میں شکم کی پیاس انہی خودمست آنکھوں کے روشن
روزنوں سے میٹھے چشموں کی چمک کو سونگھتی ہے
لوگ کسی کو کتنا ہی بے فکر تفکر والا سمجھیں، پر یہ تو اس کا دل ہے
جانتا ہے ، میٹھے چشمے کتنے دور ہیں جو لوگوں کو اس کی آنکھوں میں لہراتے نظر آتے ہیں
 
فہرست